Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر28

رومان۔۔۔؟؟وہ جو اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا دادو کی آواز پر مڑا۔۔۔ جی دادو ۔۔۔رومان ادب سے ان کے قریب آکر بولا۔۔۔ ادھر بیٹھو میرے پاس۔۔۔انہوں نے محبت سے کہا۔۔ جی۔۔ کہتے ہوئے ان کے قریب بیٹھ گیا۔۔۔ کل نورین کا فون آیا تھا۔۔تمہارے بارے میں بات کر رہی تھی۔۔۔ اچھا جی۔۔کہی ماما میری شکایت تو نہیں لگا رہی تھیں۔۔۔رومان شرارت سے بولا۔۔۔ رومان کی بات پر نانو مسکرا دیں۔۔ ارے نہیں وہ بیچاری تمہاری شکایت کیوں لگائے گی۔۔۔وہ کہہ رہی تھی کہ تمہارے لیے اب ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈوں۔۔۔جو تمہیں قابو میں رکھے۔۔ویسے اتنے دن ہوگئے ہیں تمہیں پاکستان آئے بتاؤ کوئی لڑکی پسند آئی ہے۔۔۔؟؟دادو نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی دادو کی بات پر رومان کو ایک پل کے لیے ہانیہ کا مسکراتا چہرہ نظر آیا۔۔ کیا ہوا کہا کھو گئے۔۔۔؟؟ دادو کی آواز پر وہ چونکا۔۔۔ کہی نہیں دادو۔۔۔بس یہی سوچ رہا ہوں کہ مجھے ابھی تک کوئی لڑکی پسند کیوں نہیں آئی۔۔۔ چلو کوئی بات نہیں۔۔ویسے میری نظر میں دو تین بہت اچھی لڑکیاں ہیں اگر تم کہو تو میں کسی ایک سے تمہاری بات چلاؤں۔۔۔ نہیں دادو۔۔۔مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔رومان نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔۔ کیوں نہیں کرنی۔۔۔شازل کی تو سمجھ آتی ہے اس نے ہانیہ کی وجہ سے شادی نہیں کی۔۔۔لیکن تم کیوں نہیں کر رہے۔۔۔۔ ابھی ماما کم ہیں پوچھنے کے لیے کہ کہا جا رہے ہو کہا سے آرہے ہو۔۔۔پھر وہ آجاۓ گی۔۔نہ بابا نہ۔۔مجھے نہیں کروانی شادی۔۔۔ شادی تو اب میں تمہاری کروا کر ہی رہونگی۔۔دادو بھی باضد تھیں۔۔۔ دادو پہلے شازل اور ہانیہ کی شادی کے بارے میں سوچے میری نہیں۔۔۔رومان نے صفائی سے بات کا رخ مڑا۔۔۔ ہمم۔۔۔جب سے دونو سجل سے مل کر آئے ہیں ایک دوسرے سے ٹھیک سےبات کر رہے ہیں۔۔۔شازل بتا رہا تھا کہ ان کے بیچ جو غلط فہمی تھی وہ دور ہوگئی ہے۔۔۔دادو نے تفصیل بتائی۔۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے دادو۔۔۔پھر شازل کب ہانیہ سے شادی کی بات کریں گا۔۔۔؟ کہہ رہا تھا آج کرونگا۔۔۔ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔۔۔دادو جیسے ہی ہانیہ نے ہاں کر دی نہ ۔۔۔ہم فوراً ہی ان کی شادی کی تاریخ رکھ دیں گے۔۔۔رومان چہک کر بولا۔۔۔ ہاں دعاکرو ہانیہ مان جاۓ۔۔۔انھیں ہانیہ کا ڈر بھی تھا کہی وہ انکار ہی نہ کر دیں۔۔۔ دادو وہ بھلا کیوں انکار کریں گی۔۔۔بہت محبت کرتی ہیں وہ ان سے۔۔۔ میں نے انکی آنکھو میں دیکھا تھا۔۔۔ایک عجیب سہ دکھ تھا جو بولتے ہوۓ رومان کی آنکھو سے جھلک رہا تھا۔۔۔ ہاں میرے بچے وہ دونو ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن بہت تکلیفیں بھی برداشت کی ہیں انہوں نے اس محبت کے لیے۔۔۔دادو دکھ سے بولیں۔۔ پر اب دیکھنا جب وہ دونو ایک ہوجاۓ گے تو ان کے نصیب کی سب خوشیاں اللہ‎ انھیں عطا کریں گا۔۔۔رومان پر امید تھا۔۔۔ امین۔۔۔دادو نے دل سے کہا۔۔۔


کہا ہیں اے سی صاحبہ شازل نے شرارت سے پوچھا۔۔۔ شازل کے ایسے پوچھنے پر وہ مسکرا دی۔۔۔ میں آفس سے گھر کے لیے نکلنے والی ہوں۔۔ہانیہ نے فون کے اس پار موجود شازل کو اطلاع دی۔۔۔ چلو یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔کس کے ساتھ۔۔۔؟؟ کیا مطلب کس کے ساتھ۔۔؟؟ سرکاری گاڑی میں جو مجھے ملی ہے۔۔۔ سہی۔۔میں سوچ رہا تھا کیوں نہ آج ہم کچھ ٹائم سپینڈ کریں۔۔۔۔ اگر تمہیں برا نہ لے گے تو۔۔۔مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔شازل ہچکیچا تھا۔۔ ٹھیک ہے آپ آجاۓ میں آپکا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔ ٹھیک ہیں میں ابھی آیا۔۔۔کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔۔۔ ہانیہ اپنی چیزیں اٹھا کر کمرے سے باہر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ کچھ دیر بعد شازل اسے لینے آگیا تھا۔۔۔ شکر ہے تم نے اس بار انکار نہیں کیا۔۔۔ورنہ میں تو سمجھا تم نہیں آؤگی۔۔۔شازل گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ اب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔۔۔ہانیہ ناگواری سے بولی۔۔۔۔۔ ارے نہیں شرمندہ نہیں کر رہا بس تمہیں تنگ کر رہا تھا۔۔۔شازل جیسے اب اسکی ناراضگی سے ڈر رہا تھا۔۔۔ میں سمجھی تھی رومان بھی آپ کے ساتھ ہوگا۔۔۔ نہیں میرا تو اس سےصبح سے رابطہ ہی نہیں ہوا۔۔۔اچھا یہ بتاؤ کیا کھاؤ گی۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ہانیہ نے صاف انکار کردیا۔۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔۔چلو تمہیں تمہاری پسند کی جگہ کے گول گپے کھلاتا ہوں۔۔۔شازل مسکراتے ہوۓ بولا۔۔ نہیں بھئی میں نہیں کھا رہی گول گپے۔۔۔کوئی دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا۔۔۔ ہانی کیا ہوگیا ہے۔۔۔جانتا ہوں تم اس شہر کی اے سی ہو۔۔۔مگر ہم گاڑی میں بیٹھ کر ہی کھائیں گے۔۔شازل نے حل بتایا۔۔۔ اچھا چلے ٹھیک ہیں۔۔۔نا چاہتے ہوۓ بھی ہانیہ کو شازل کی بات ماننا پڑی تھی۔۔۔۔یا شاید آج کئی سال بعد پرانی یادیں تازہ کرنے کا دل تھا۔۔۔


افف ہانی اتنی مرچیں تو نہیں تھی جتنی تمہاری ناک سرخ ہو چکی ہے۔۔۔شازل اور ہانیہ گول گپے کھا کر اب ایک پارک میں قدم سے قدم ملائیں چل رہے تھے۔۔۔ کافی سالو سے زیادہ مرچیں نہیں کھائی نہ شاید اس لیے۔۔۔۔ہانیہ ٹشو پیپرسے ناک رگڑتی ہوئی بولی۔۔۔ کوئی بات نہیں اب میں تمہیں کھلایا کرونگا۔۔۔شازل آنکھو میں شوخی سجائیں بول رہا تھا۔۔۔ کیوں آپ مجھے کیوں کھلایا گئے۔۔آپ کی منگیتر ہے نہ اس کھلایا کیجیے گا۔۔۔زمین کو دیکھتی اپنی دھن میں ہی بول رہی تھی۔۔۔ اور ہانیہ کی بات پر شازل کے چلتے قدم وہی روک گئے۔۔۔شازل کو ایكدم روکتا دیکھ کر ہانیہ بھی حیران ہوئی تھی۔۔ کیا ہوا روک کیوں گئے۔۔ہانیہ نے سوالیہ نظرو سے شازل کو دیکھا۔۔۔ تمہیں کس نے بتایا میری منگیتر کے بارے میں۔۔۔؟؟شازل نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔ وہ اس دن آپ اور رومان باتیں کر رہے تھے تو میں نے وہ باتیں سن لیں تھیں۔۔۔ کیا سنا تھا تم نے۔۔۔؟؟ بس یہی کے رومان آپ سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کی منگنی کو تو دو سال ہوگئے ہیں تو آپ شادی کب کروا رہے ہیں۔۔۔ہانیہ نے تفصیل بتائی۔۔۔ تو کیا تم نے میرا جواب نہیں سنا تھا۔۔۔شازل سوال پر سوال کر رہا تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ہانیہ نے صاف گوئی سے کام لیا۔۔۔ ہانی میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔شازل اس کی بات کو پس پشت ڈال کر بولا۔۔۔ ہانیہ تو اسکے ایكدم ایسے بولنے پر ششدرہ گئی۔۔۔اسے یقین نہیں تھاکہ شازل اسے ایسے کہہ دے گا۔۔۔ شازل آپ شاید اپنے ہوش میں نہیں ہیں آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔۔۔ہانیہ کا کچھ دیر پہلے والا نارمل انداز اب سخت ہو چکا تھا۔۔۔ ہانی میں اپنے ہوش میں ہی ہوں۔۔۔اور تم سے شادی کے لیے مجھے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔شازل اسکے سامنے کھڑا اسکی آنکھو میں دیکھ کر بول رہا تھا۔۔۔ پر میں ایسا کبھی نہیں کرونگی شازل۔۔۔میں آپ سے شادی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ہانیہ سنجیدگی سے بولی۔۔۔ لیکن کیوں ہانی۔۔۔؟؟ شازل آپ کی منگنی ہوچکی ہے۔۔۔ مجھے لگ رہا ہے جو تھپڑ تم نے مجھے مارا تھا اسکا اثر تمہارے دماغ پر ہوگیا ہے۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ہانیہ اسے گھورتے ہوئے بولی۔۔ مطلب یہ کے اگر تم نے اس دن رومان کے ساتھ ساتھ میری بھی بات سن لی ہوتی تو تم یہ کبھی نہ کہتی۔۔۔ میں سمجھی آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ہانیہ کا غصہ اب کم ہوگیا تھا۔۔۔ یار میری منگنی ماما نے زبردستی اپنی کسی دوست کی بیٹی سے کروا دی تھی۔۔۔اور پورے خاندان میں یہ بات پھیلا دی۔۔۔لیکن میں نے ایک ہفتے بعد منگنی توڑ دی تھی۔۔۔کیونکہ میں تمہارے علاوہ کسی اورکو اپنا نہیں بنا سکتا تھا۔۔۔۔ اور ہانیہ بینا پلک جھپکے شازل کی بات سن رہی تھی۔۔۔ اب تو کوئی اعتراض نہیں ہے نہ۔۔۔شازل نے سوالیہ نظرو سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔ میں پھر بھی آپ سے شادی نہیں کرونگی۔۔۔ہانیہ اپنی بات پر ابھی بھی قائم تھی۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔؟؟ شازل آپ میری بیٹیوں کے باپ نہیں بن سکتے۔۔۔وقت حالت سب بدل گئے ہیں۔۔۔میری اب دو بیٹیاں ہیں۔۔۔ ہانی تمہیں مجھ پر تھوڑا سہ بھی یقین نہیں ہے؟؟؟کیا تمہیں لگتا ہے میں تمہاری بیٹیوں کو باپ کی محبت نہیں دے سکونگا۔۔۔؟؟شازل دکھ سے بولا۔۔۔ مجھے آپ پر یقین ہے لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتا۔۔۔کوئی بھی کسی کی اولاد کو وہ پیار نہیں دے سکتا جو سگے والدین دے سکتے ہیں۔۔۔اور ویسے بھی مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے میں اپنی اولاد کو بغیر کسی سہارے کے پلنا چاہتی ہوں۔۔۔ لیکن ہانی تم میرے ساتھ۔۔۔اس پہلے وہ مزید کچھ کہتا ہانیہ نے اسکی بات کاٹی۔۔۔ شازل اب آپ مجھ سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں ہمیشہ آپ سے ایسے ہی بات کرتی رہوں۔۔۔ پر ہانی کیا تمہیں میری محبت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔؟؟شازل نے اسکی آنکھو میں دیکھ کر پوچھا۔۔۔ شازل کے ایسے دیکھنے پر ہانیہ نے نظریں چرا لیں۔۔۔ دیر ہو رہی ہے میرے خیال میں اب ہمیں چلنا چاہئے کہتے ہوۓ گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ اور شازل کو ہانیہ کے انکار کے بعد اپنا ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔

   0
0 Comments